دوشنبه, ۱ بهمن ۱۳۹۷، ۱۲:۴۴ ب.ظ
خلاصہ خطبہ اول نهج البلاغه
خلاصہ خطبہ اول نهج البلاغه
سید احمد علی نقوی
خلاصہ خطبہ اول
ومن خطبہ لہ،یذکر فیہا ابتداءالخلق الاسماء والارض،والخلق ادم وفیھا ذکر الحج و تحتوی علی حمد اللہ ولخلق العالم وخلق ملائکة ابتداء ولاختیار الانبیاء وبعث النبی والقرآن والاحکام شریعہ
اس خطبہ میں (امام علیؑ نے ) زمین اور آسمان کی خلقت کی ابتداء کا ذکر ،اور آدمؑ کو خلق کسے کیا گیا اور حج کا بہی ذکر ہوا ہے اور یہ اللہ کی حمد پہ مشتمل ہےاس دنیا کو کسے بنایا اور ملائکہ کی خلقت اور نبی کا اختیار کتنا ہے اور نبی کو کیوں مبعوث کیا گیا ۔۔۔۔۔۔ یہ سب اس خطبہ میں ذکر کیا گیا ہیں ،
یہ خطبہ نہج البلاغہ کیلئے منزل فاتحة الکتاب ہے کیونکہ نہج البلاغہ کا پورا علم اس خطبہ میں موجود ہے
📜 خطبہ اول
الحمد اللہ الذی لا............بالسکور
🌹قائلون
کوئی بہی اس کی ستائش اور مدح تک نہیں پہنچ سکتا
🌹ولا یعسی
شمار کرنے والے نعمتوں کو کتنا بہی شمار کرے وہ شمار نہیں کرسکتے
🌹ولا یوعدی حقہ المجتہدون
مجتہد سے مراد کتنی بہی کوشش کرلیں
مجتہد کی معنی لغوی ہے
چاہے کتنی بہی کوشش کریں اس کا حق ادا نہیں کرسکتے
جیسے حضرت موسی سے خطاب ہوا
یا موسیٰ الان شکرتنی ...................عادون
اب یہاں پہ نعمت کا ذکر ہوا ہے
نعمت کی دو قسمیں ہیں
کچھ نعمتیں مادی،اور معنوی ہوتی ہیں
کچھ نعمتیں ظاھری،باطنی ہوتی ہیں
کچھ نعمتیں فردی،جمی ہوتی ہیں
اب جو بہی نعمت ذہن میں آئے لیکن. نعمت ،نعمت ہیں
ایک مقید ہوتا ہے اور ایک مطلق ہوتا ہے
مولا نے مقید نہیں کیا
بلکہ مولا نے فرمایا جو بہی نعمت ہے جس پہ نعمت کا اطلاق آتا ہے اسے شمار نہیں کرسکتے ہے
🌹الذی لا یدرکہ..........
وہ بلند افکار اس کو درک نہیں کرسکتے
🌹ولا ینالہ .........
غواص ....یعنی جو تیرنے میں ماہر ہو (آقا رضی لکہتے ہے کہ غواص یعنی ہوشمند )
مولا فرماتے ہے چاہے کتنا ہی اس علوم میں، معرفتوں میں غواص ہو وہ اللہ تک نہیں پہنچ سکتے
🌹الذی لیس لصفتہ .............
اگر خدا کی صفت ہے تو اس کی کوئی حد نہیں ہے
فتن۔ فتنہ کی جمع ہے
لسان العرب میں آقا نے بیان کیا ہے کہ سمجہنا، زکاوت،ہوش، کو فتن کہتے ہے
یعنی غوص الفتن یعنی جو زہین آدمی تہا اسکی غواصی بہی کام کی نہیں ،
🌹ولا نعة........
اس کی نیکیوں کو بہی بیان نہیں کرسکتے کوئی ایسا لفظ نہیں ہے جو اس کے تمام تر کمالات کو بیان کرسکے
📌نعت اور صفت میں فرق ہے
نعت یعنی جو نیک صفت ہو
صفت کی دو قسمیں ہیں
ایک صفات حسنہ ہوتی ہے مثلا.,علم
دوسری صفات سیئات ہوتی ہے
صفت دونوں قسم کہ ہوتی ہے
اللہ کی صفت ثبوتیہ ہے اور صفت سلبیہ اللہ میں موجود نہیں ہے
🌹ولا وقت محدود۔۔۔
اس کے لیے کوئی وقت نہیں ہے وہ پہلے سے تہا اور ہمیشہ رہے گا
🌹ولا اجل.........
اور اس کیلئے کوئی اجل (دائرہ) موجود نہیں
🌹فطر الخلائق...........
فطر یعنی خلق
اور خلائق کو اللہ نے اپنی قدرت سے خلق کیا ہے
🌹ونشر ........
نشر یعنی حرکت میں لانا
ریحیا،یعنی ہوا.
اس نے اپنی رحمت سے ہواوں کو جاری کیا،۔
🌹وتد.........
وتد یعنی کنٹرول ،آرام کرنا
زمین کی لرزش کو اللہ نے جبل سے کنٹرول میں کیا ہے
🌲نہج البلاغہ
🔥توحید ذات اور صفات خدا
🌲قال امام علیؑ
اول دین ........................ومن عدہ
💫اول دین معرفتہ۔۔۔۔۔۔
دین کی ابتداء معرفت خدا ہے
معرفت یعنی جاننا،پہچاننا
جب انسان معرفت حاصل کرتا ہے تو چاہتا ہے کہ اس کی کمال معرفت حاصل کریں
💫والکمال معرفتہ.............
اس معرفت کا کمال یہ ہے کہ اس کی تصدیق کی جائے
معرفت تصدیق تب حاصل ہوگی جب معرفت تام ہو ،خدا کو کوئی بہی پہچان نہیں سکتا ہے
حتی کہ جو بشر ہے مخلوق خدا ہے
اس کیلئے رسول خداؐ نے امام علیؑ کے لیے فرمایا کہ
اے علیؑ تمہیں کسی نے نہیں پہچانا ،سوائے مجہہ رسول ؐ نے ،یا اللہ نے پہچانا ہے
اسی طرح قول رسول خدا کیلئے ہے
رسوؐل خدا کو مولا علیؑ نے پہچانا اور اللہ نے ۔
اور جو اس کا خالق ہے اس کو کوئی نہیں پہچانتا
دراصل پہچانا اسے جاتا ہے جس کی تعریف ہو،اللہ کی تعریف کی کوئی حد نہیں ہے
💫ولکمال تصدیق بہ توحید۔۔۔
اس کا اکیلا ہونا ،توحید کمال تصدیق ہے
💫وکمال توحیدیہ.......
اور خدا کی توحید کا کمال اخلاص ہے
اخلاص یعنی اس کا کوئی بہی جز قرار نہیں دینا
💫وکمال اخلاص۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی صفتوں کی نفی کرنا کمال اخلاص ہے
💫لشہادت کل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیونکہ ہر صفت گواہی دیتی ہے کہ وہ غیر موصوف ہے
ایک دفعہ صفت ہے لیکن وہ غیر خدا ہے
اللہ عالم ہے لیکن علم کو ہم غیر خدا سمجہے
اگر اللہ کو غیر سمجہہ
تو اس میں ایک چیز لازم آئے گا وہ یہ کہ اس علم کو جو ہم غیر سمجہہ رہے ہے
اس علم میں خدا کا محتاج ہونا ضروری ہے
آیا خدا کیلئے ضروری یا ضروری نہیں۔
اگر ضروری ہے تو اللہ اس کا محتاج ہے
کیونکہ جو چیز ضروری ہوتی ہے تو وہ اس کا محتاج ہوتاہے . جو محتاج ہوتا ہے وہ خدا نہیں ہوتا
اس کا مطلب یہ ہوا کہ خدا کا علم عین ذات ہے
💫وشہادت کل موصوف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور موصوف یہ گواہی دیتا ہے کہ وہ اصل صفت نہیں ہے غیر صفت ہے
💫ومن وصف اللہ ۔۔۔۔۔
جس نے خدا کی صفت بیان کی اس نے کسی نہ کسی کو خدا کے ساتہہ ملا دیا
💫ومن قرنہ۔۔۔۔۔۔
اور جس نے ملا دیا وہ دوغانگی کا قائل ہوگیا
💫ومن ثناہ۔۔
جس نے تثنیہ بنائی اس نے خدا کو جز جز کردیا
ایک جز صفت ایک جز خدا
💫ومن جزاء ۔. . . . . . . .
اور جو خدا کے اجزاء کر رہا ہے وہ در واقع خدا ہی سے جاہل ہے
خدا کے جز نہیں ہے
💫ومن جھلہ۔۔۔۔۔
اور جو جاہل جس چیز کی طرف اشارہ کیا جائے اس نے اس کو محدود کردیا
💫ومن حدہ۔۔۔۔۔۔
اور جس نے بہی خدا کو محدود کردیا ،اس نے شمار کردیا
۹۷/۱۱/۰۱