حجت مشن

ایب بلاگ مربوط به تشکل حجت مشن می باشد
  • حجت مشن

    ایب بلاگ مربوط به تشکل حجت مشن می باشد

مشخصات بلاگ

این تشکل سال 1385 تاسیس شد که الحمد لله بتوسط آن دو حوزه علمیه در پاکستان اداره می شود
یکی بنام جامعت الحجت ودیگری برای خواهران که بنام جامعة فاطمة الزهرا س می باشد

این تشکل یک انجمن را بنام alilsamforum.com تاسیس نموده که شبهات اعتقادی ودیگر را پاسخ می دهد
وهمینطور یک سایت بنام www.hujjat14.com هم دارد که بزبان سندهی مقالات علمی را بارگذرای می کند

جمعه, ۲۶ بهمن ۱۳۹۷، ۰۷:۵۷ ق.ظ

فقہا کی حکمرانی کی مختصر تاریخ

فقہا کی حکمرانی کی مختصر تاریخ


وہ ولایت جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ اور ائمہ علیہم السلام کے لیے ثابت ہے وہی ایک فقیہ کے لیے بھی ثابت ہے اس بات میں اس وقت تک کوئی شک و شبہ نہیں کیا جا سکتا جب تک کوئی دلیل اس کے خلاف نہ ہو۔ ولایت فقیہ کا موضوع کوئی نیا موضوع نہیں ہے بلکہ اس مسئلہ پر بہت پہلے سے ہی بحث ہوتی رہی ہے۔ میرزا شیرازی کا تنباکو کی حرمت پر جو فتویٰ تھا اس کی حیثیت چونکہ حکومتی حکم کی تھی لہذا دوسرے فقہا کے لیے بھی اس کا ماننا واجب تھا۔ ایک قلیل تعداد کو چھوڑ کر ایران کے بڑے علما کی اکثریت نے اس فتوے کو تسلیم کیا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ کچھ لوگوں کے اختلاف کو سلجھانے کی خاطر یہ حکم عدالتی فیصلہ کی طرح کا کوئی حکم ہو بلکہ مسلمانوں کے مفاد کو نظر میں رکھتے ہوئے انہوں نے حکم ’’ثانوی‘‘ کے عنوان سے یہ حکومتی حکم صادر فرمایا تھا۔ جب تک عنوان موجود تھا یہ حکم بھی باقی تھا اور جیسے ہی عنوان ہٹایا حکم بھی اٹھا لیا گیا۔


مرزا محمد تقی شیرازی جنہوں نے جہاد کا حکم دیا تھا جس کا نام’’دفاع‘‘ رکھا گیا سبھی علماء نے اس حکم پر عمل کیا تھا کیوںکہ وہ حکم حکومتی حکم تھا۔


کہا جاتا ہے کہ کاشف الغطا نے بھی اس طرح کے بہت سے مطالب بیان فرمائے ہیں۔ متاخرین علما نراقی نے رسول خدا (ص) سے مربوط تمام شئونات (اختیارات) کو فقہا کے لیے بھی ثابت جانا ہے۔ مرحوم آقائے نائینی بھی فرماتے ہیں کہ یہ مطلب ’’مقبولہ عمر ابن حنظلہ‘‘ سے استفادہ کیا جا سکتا ہے (جس کی وضاحت بعد میں بیان کی جائے گی)۔


اسلامی معاشرے کو اگر کوئی چیز بچا سکتی ہے تو وہ’’ اسلامی حکومت‘‘ ہے۔ امام خمینی(رہ) کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اسلام کی حکمرانی کی بحث چھیڑی جسے وہ ولایت فقیہ سے تعبیر کرتے تھے۔ ولایت فقیہ کا مبنا و نظریہ انتہائی مستحکم ہے۔ قدیم زمانے سے اب تک اگر کسی نے اس بحث کو نہیں چھیڑا یا اسے کنارے پڑے رہنے دیا تو اس کی وجہ یہ رہی کہ ان کی سوچ یہ تھی کہ جو چیز عملی نہیں ہو سکتی اس کے بارے میں بحث کر نے کا کیا فائدہ۔ اس سے ہٹ کر جب انسان فقہا کی کتابوں میں دیکھتا ہے تو اسے یہ پتا چلتا ہے کہ فقہا میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جو غیر اسلامی حاکم کی حکمرانی کو قبول کرتا ہو (فقہ کے مختلف ابواب میں انسان اس بات کو ملاحظہ کر سکتا ہے)۔


یہ بات مسلمات میں سے ہے اس کی اگر مثال پیش کیا جائے تو جو تعبیرات صاحب جواہر نے ولایت فقیہ کے بارے میں استعمال کی ہیں وہ بالکل واضح ہیں۔ صاحب جواہر ولایت فقیہ کے دائرہ کار کو صرف ولایت بر صغار (چھوٹوں پر ولایت) تک محدود نہیں سمجھتے بلکہ اس سے بالاتر دوسرے اہم فقہی ابواب جیسے باب جہاد میں فقیہ کی ولایت کی توسیع کے قائل ہیں او اس مسئلہ کو اسلامی فقہ کے واضح مطالب میں سے جانتے ہیں۔ مرحوم نراقی اور آپ ہی کی طرح کے لوگوں نے اس سلسلے میں اچھی خاصی بحث کی ہے۔ اس فکر کی بنیاد بہت ہی مضبوط ہے اور اس کو امام خمینی(رہ) نے پیش کیا ہے۔


امام خمینی(رہ) نے فقہ کے محکم قاعدوں کی مدد سے ۱۳۴۷ہجری شمسی میں نجف اشرف جیسے فقاہت کے مرکز میں ولایت فقیہ کی خاموش اور فراموش شدہ بحث کو دوبارہ زندہ کیا۔ ولایت فقیہ، شیعہ فقہ کے مسلمات میں داخل ہے۔ بعض کم پڑھے لکھے لوگ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ولایت فقیہ امام خمینی(رہ) کی ایجاد ہے ان کے علاوہ کوئی اور اس کا قائل نہیں ہے ان کا یہ کہنا ان کی لا علمی کا نتیجہ ہے۔ جو لوگ فقہا کے کلام سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ ولایت فقیہ کا مسئلہ شیعہ فقہ کے روشن اور واضح مسائل میں سے ایک ہے۔ جو کام امام خمینی(رہ) نے کیا وہ یہ تھا کہ آپ نے اس فکر کو مضبوط اور مستحکم دلائل کے ساتھ اس کی کیفیت کو ان آفاق سے ہم آہنگ کر دیا جو عصر حاضر کی سیاست اور اس کے بارے میں مختلف مکاتب فکر رکھتے تھے اس طرح سے کہ جدید سیاسی مکاتب فکر اور سیاسی مسائل سے آشنا لوگوں کے لیے یہ فکر قابل فہم ہونے کے ساتھ ساتھ قابل قبول ہو جائے۔

قسط ۲ 


ولایت فقیہ کی تعریف


فقیہ کی قیادت اور دین شناس فقیہ کی حکمرانی سے مراد کیا ہے؟ فقیہ اس شخص کو کہتے ہیں جو دین کی گہری سمجھ رکھتا ہو۔ فقیہ اس راستے کی نشان دہی کرتا ہے جس پر دیندار لوگ چل کر دنیا اورآخرت میں سعادت سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ ایسے شخص کی حکمرانی ایک عقلی اور منطقی استدلال پر استوار ہے۔ ایسی دلیل جو فقیہ کی حکمرانی کو ثابت کرتی ہو کسی فوجی حکمران، کسی سرمایہ دار حکمران یا کسی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھنے والے حکمران کی حکمرانی کے تعلق سے بھی ایسی منطقی اور عقلی دلیل نہیں پائی جاتی۔ ولایت فقیہ کی اصطلاح عربی زبان کی ایک اصطلاح ہے جو دینی طلباء و علما کی کتابوں میں درج ہے۔ فقیہ کی حکمرانی کا مطلب یہ ہے کہ زمام حکومت کو ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں دے دینا جس سے کوئی غلط کام کی امید نہ ہو۔ یہ بہت اہم چیز ہے۔ جب بھی کوئی غلط کام اس سے سرزد ہو تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ اس مقام کا اہل نہیں ہے۔ لوگوں کے ساتھ ساتھ وہ خود بھی اس بات کو سمجھ رہا ہوتا ہے کہ اگر کوئی غلط کام وہ کر رہا ہے تو پھر اسے حکمرانی کا کوئی حق نہیں ہے۔


اب جبکہ امام زمانہ (ع) کی غیبت کا دور ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ اسلام کے حکومتی احکام بھی جاری و ساری رہیں اور اس میں کوئی خلل واقع نہ ہو تو لازمی طور پر ایک حکومت اسلامی کی تشکیل ناگزیر ہے۔ عقل بھی اسی بات کا حکم دیتی ہے کہ اسلامی حکومت کی تشکیل ضروری ہے اس لیے کہ اگر کوئی ہم پر حملہ کر دے تو کم از کم ہم اس حملے کو روک سکیں۔ اگر ناموس مسلم خطرے میں پڑ جائیں تو ہم اس کا دفاع کر سکیں۔اسلامی شریعت نے بھی یہی حکم دیا ہے کہ ان لوگوں کو ایک دوسرے پر ظلم کرنے سے باز رکھنے کے لیے بھی قانون اور اس کا نفاذ ضروری ہے یہ ایسے کام ہیں جو خود بخود انجام نہیں پا سکتے بلکہ ان کی انجام دہی کے لیے ایک حکومت کا قیام ضروری ہے۔ حکومت کا قیام اور معاشرے پر حکمرانی کرنے کے لیے چونکہ اس کا مالی طور پر مستحکم ہونا ضروری ہے لہذا شریعت نے خمس و زکات اور خراج(ٹیکس) کی وصولی کے ذریعے مالی نظام کو مستحکم بنایا ہے۔


غیبت کے زمانے میں خدا نے کسی کو اپنی طرف سے حکومت قائم کرنے کے لیے مقرر نہیں فرمایا تو ایسے حالات میں ہماری ذمہ داری کیا ہے؟ کیا ہم اسلام کو خدا حافظ کر دیں؟ اب ہمیں کسی اسلام کی ضرورت نہیں ہے؟


اسلام صرف دو سو سال تک کے لیے ہی تھا؟ اسلام نے ہماری ذمہ داری معین تو کر دی ہے لیکن وہ ذمہ داری حکومت کے قیام کی نہیں ہے؟ اسلامی حکومت کے نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کے بیشتر قوانین کو تعطیل کر دینا پڑے گا۔ غیبت کے زمانے میں اگر خدا نے کسی شخص کو حکومت کے لیے معین نہیں کیا ہے لیکن حکومت کی وہ خصوصیت جو ابتدائے اسلام سے لے کر حضرت حجت(ع) کے زمانے تک موجود تھی اسی خصوصیت کے ساتھ حضرت کی غیبت کے بعد بھی قرار دیا ہے۔ وہ خصوصیت کچھ اور نہیں بلکہ قانون کا علم رکھنا اور عدالت برپا کرنا ہے جو ہمارے بہت سے فقہا متحد ہو جائیں تو ساری دنیا میں ایک عادل حکومت قائم کر سکتے ہیں۔ اگر ایک لائق فرد اٹھے جو ان دو صفتوں کا حامل ہو اور حکومت قائم کرے تو جو ولایت رسول خدا (ص) حکومت کو چلانے کے لیے رکھتے تھے سب پر لازم ہے کہ اس کی اطاعت کریں(کتاب ولایت فقیہ امام خمینی)

قسط ۳ 

ولایت فقیہ کو ثابت کرنے والی دلیلیں


اسلامی معاشرے میں ولایت کا مسئلہ بہت ہی روشن اور واضح ہے جو اسلامی بنیادوں پر استوار، قرآنی آیات سے اخذ شدہ ہے اور ایک سلیم العقل بلاغرض انسان اس کی تصدیق کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا۔


عقلی دلیلیں


ولایت فقیہ ایک ایسا موضوع ہے جس کا محض تصور ہی اس کی تصدیق کا سبب ہے اور اس کو ثابت کرنے کے لیے شاید کسی برہان و دلیل کی ضرورت ہی نہ ہو کیونکہ جو بھی اسلام کے عقائد و احکام سے اگر اجمالی طور پر ہی مگر صحیح سے واقف ہو جیسے ہی وہ ولایت فقیہ کے مسئلہ تک پہنچتا ہے فورا اس کی تصدیق کرتا ہے اور اس کو ضروریات دین اور بدیہی چیزوں میں پاتا ہے(کتاب ولایت فقیہ امام خمینی)


ولایت فقیہ یعنی اسلامی معاشرے میں فقیہ کی حکومت۔ اس کو ثابت کرنے کے لیے ہمیں شاید دلیل نقلی کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو گر چہ نقلی دلائل یعنی قرآن و حدیث سے فقہا و علماء ربانی کی حکومت کو ثابت کرنے کے لیے بہت سی دلیلیں موجود ہیں لیکن اگر قرآن و حدیث سے بھی کوئی دلیل نہ ملے تب بھی ولایت فقیہ کو ثابت کے لیے عقلی دلیل ہی کافی ہے۔ اگر ہم صرف اتنا جان لیں کہ اسلامی معاشرہ میں الہی احکام کو نافذ کرنے کے لیے ایسے افراد کی ضرورت ہے جو دین کی گہری سمجھ رکھتے ہوں تو بس اتنا ہی کافی ہے۔ جو شخص یہ مانتا ہو کہ معاشرے میں خدا کے احکام اور اسلامی قانون کا نفاذ ہونا چاہیے اور اس بات کو خدا اور اسلام پر اعتقاد رکھنے کا لازمہ سمجھتا ہو تو جو اس قسم کا عقیدہ رکھتا ہو ایسا شخص ولایت فقیہ کو سمجھنے کے لیے کسی استدلال کا محتاج نہیں رہے گا۔


اب اس کے لیے یہ ضرورت باقی نہیں رہے گی کہ اسے یہ سمجھایا جائے کہ قرآن و حدیث نے ولایت فقیہ کے تعلق سے کیا کہا یہ اس لیے ہے کہ معاشرہ اسلامی قوانین پر چلنے کا پابند ہو ضروری ہے کہ اس معاشرے کا حاکم ایک ایسا شخص ہو جو اسلامی قوانین کا عالم ہو۔


وہ معاشرہ جہاں الہی اور دینی اقدار کی کوئی اہمیت نہ ہو اور اس بات پر راضی ہو کہ اس معاشرہ کا حاکم ایک ایسا شخص بن جائے تو انسانی صفات سے عاری ہو تو ایسا معاشرہ ایک فلمی ادا کار، ایک بڑے سرمایہ دار اور انہیں جیسے افراد کو زمام حکومت سونپنے میں ذرہ برابر ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرے گا لیکن وہ معاشرہ جو الہی اور دینی اقدار کا پابند ہو توحید پروردگار کو دل و جان سے قبول کرتا ہو نبیوں کی نبوت پر اعتقاد رکھتا ہو خدا کی شریعت کا قائل ہو ایسے معاشرے کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ ایک ایسے شخص کو حاکم کے طور پر قبول کرے جو خدا کی شریعت سے واقف ہو الہی اخلاق سے آراستہ ہو گناہ نہ کرتا ہو غلطی اس سے سرزد نہ ہوتی ہو، ظلم نہ کرتا ہو، مفاد پرست نہ ہو، لوگوں کا درد رکھتا ہو، الہی اقدار کو اپنی ذات اور اپنے گروہ کی منفعت پر ترجیح دیتا ہو۔


آج اسلامی حکومت اور ولایت فقیہ دو ایسے موضوعات ہیں جن کی فقہ جعفری اور عقلی معیارات کے نزدیک ایک مسلمہ حیثیت ہے۔ اگر انسان اپنی گفتگو کی بنیاد عقلی معیارات کو قرار دے تو تمام حکومتی نظریوں میں یہ نظریہ پوری طرح واضح، روشن اور قابل دفاع نظریہ نظر آئے گا۔ لیکن اس نظریہ ہے خدشہ وارد کرنے کی خاطر اس کا موازنہ پادریوں کی ظالمانہ حکومت یا پھر سلطنتی طرز حکومت سے کیا جاتا ہے جس کی تردید کرنا بہت ضروری ہے۔


موافقین ۰ مخالفین ۰ ۹۷/۱۱/۲۶
سید احمد علی نقوی

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی